Popunder ads

Breaking

اتوار، 8 مارچ، 2020

9:59 AM

چمن میں دھماکا، 5 افراد زخمی

چمن: ( 07 مارچ 2020) بلوچستان کے ضلع چمن میں دھماکا ہوگیا جس کے نتیجے میں 5 افراد زخمی ہو گئے۔
چمن کے علاقے تاج روڈ پر لیویز ہیڈ کوارٹر کے قریب دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 5افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے سے قریب کھڑی موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔
دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیر ے میں لے کر ابتدائی کارروائی شروع کردی ۔دوسری جانب امدادی ٹیموں نے زخمی افراد کو ہسپتال منتقل کردیا جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے ۔
9:58 AM

کورونا وائرس پر فتح یاب کراچی کا نوجوان ڈسچارج ہوگیا

کرونا وائرس کو شکست دینے والے یحییٰ جعفری کو آغا خان اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں کروناوائرس کے پہلے مریض کو صحتیابی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ، 22سالہ طالب علم نجی اسپتال میں زیرعلاج تھا۔
ذرائع کے مطابق22 سالہ نوجوان یحییٰ جعفری اسپتال سے ڈسچارج ہو کر رشتہ داروں کے گھر شفٹ ہو گئے، یحییٰ جعفری کچھ دنوں تک رشتہ داروں کے گھر قیام کریں گے
یاد رہے گذشتہ روز ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے مریض کے صحت یاب ہونے سے متعلق اعلان کرتے ہوئے کہا تھا بہت خوشی ہےسندھ میں کرونا وائرس کا پہلا مریض صحتیاب ہوا، علاج کےبعد مریض کا کرونا ٹیسٹ منفی آیا ہے، نوجوان کو جلد اسپتال سے ڈسچارج کیا جائے گا۔
محکمہ صحت سندھ نے بھی  کرونا وائرس کے پہلے مریض یحییٰ جعفری کے صحت یاب ہونے کی تصدیق کی تھی۔
کراچی کے نوجوان نے کورونا وائرس کو شکست دے دی
 واضح رہے کہ 22 سالہ یحی جعفری میں 26 فروری کو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ 22 سالہ یحییٰ جعفری 20 فروری کو بذریعہ پرواز ایران سے کراچی آیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب 38 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ چین میں اب تک کورونا وائرس سے 78 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 2700 ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ وائرس پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ اس کے صرف دو کیسز کی تصدیق ہوئی ہے تاہم ایران اور افغانستان سے ملحق سرحدوں کے علاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر سکریننگ بڑھا دی گئی ہے۔
ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے اور شاید کچھ مر بھی جائیں اس لیے شرح اموات بڑھ بھی سکتی ہے لیکن یہ بھی غیر واضح ہے کہ ہلکی پھلکے علامات والے کتنے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس صورت میں شرح اموات کم بھی ہو سکتی ہے
9:56 AM

صوبوں کے ترقیاتی فنڈز سے شہروں کو ٹھیک کرنا ناممکن ہے: عمران خان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، شہر قائد پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ صوبوں کے ترقیاتی فنڈز سے شہروں کو ٹھیک کرنا ناممکن ہے۔
فائیو سٹار، کے ڈی اے چورنگی اور سخی حسن چورنگی پر بنائے جانے والے پلوں کی افتتاحی تقریب گورنر ہاؤس کراچی میں ہوئی اور وزیراعظم عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا پیغام دیا۔
وزیراعظم نے ویڈیو پیغام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لوگوں سے آج معذرت کرتا ہوں، موسم کی خرابی کے باعث کراچی نہ آسکا۔
خیال رہے کہ کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کیلئے وزیراعظم عمران خان کو آج کراچی آنا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے وہ نہیں آسکے اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے منصوبوں کا افتتاح کیا۔
وزیر اعظم نے ویڈیو پیغام میں گورنر سندھ عمران اسماعیل کو خصوصی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جاری ترقیاتی منصوبو ں کی تفصیل آپ عوام کو بتائیں۔
9:55 AM

صحافی کے قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی متنازعہ کیوں بنی؟

کراچی — 
گزشتہ ماہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو صحافیوں کے پر زور مطالبے پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کا سربراہ ایسے پولیس افسر کو بنانے کے بعد یہ تحقیقاتی ٹیم متنازعہ ہوگئی تھی جس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے سے قبل ہی محض کیمیائی تجزیات کی رپورٹس پر ہی واقعہ کو طبعی موت قرار دے دیا تھا۔
صحافی عزیز میمن کی تحقیقات کے لئے 6 مارچ کو سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ نے ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد ولی اللہ دل کی سربراہی میں نو رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔
تاہم، اس ٹیم کے سربراہ پر صحافیوں نے سخت اعتراضات کئے تھے، کیونکہ انہوں نے چند روز قبل ہی قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک کی دستیاب کیمیائی رپورٹس کے مطابق عزیز میمن کی موت میں تشدد یا زہرخورانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پولیس افسران کے مطابق وہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا مریض تھا اس لئے غالب امکان ہے کہ میمن کی موت طبعی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پولیس کے موقف کی نفیتاہم، پولیس افسران کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ کے اگلے ہی روز سامنے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عزیز میمن کی موت ان کا سانس رکنے کی وجہ سے ہوئی۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ محراب پور کے ڈاکٹر تحسین میمن اور ڈاکٹر زاہد شیخ کے دستخط سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیز میمن کا زندہ حالت میں سانس بند کیا گیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔جے آئی ٹی ہیڈ کی تقرری پر اعتراضات6 مارچ کو صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹی فیکیشن کے تحت مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی۔ ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد کی سربراہی میں قائم کی گئی نو رکنی کمیٹی کو عزیز میمن کے قتل کی تحقیقات اور اس کی وجوہات کے تعین کے لئے 15 روز کا وقت دیا گیا۔ تاہم، صحافی برادری کی جانب سے ایسے افسر کو ٹیم کا ہیڈ مقرر کرنے پر سخت اعتراض کیا گیا جس نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے موت کو طبعی قرار دیا تھا۔ جبکہ دوسرا اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں فوجی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا گیا۔ ہفتے کی صبح ترجمان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صحافیوں کے اس مطالبے پر کہا کہ قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل افسران کو متاثرہ خاندان ہی کے کہنے پر رکھا گیا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے صحافی برادری سے درخواست کی کہ واقعے کی تحقیقات ہونے دی جائے، تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی متنازعہ بات نہ کی جائے۔ عزیز میمن کا خون کسی صورت ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ صحافت کی آزادی کو ممکن بنانے اور اختلاف رائے کا احترام کیا ہے۔تاہم، شام کو محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک اور نوٹی فیکیشن میں صحافیوں کے دونوں مطالبات تسلیم کرتے ہوئے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے ممبر کو بھی شامل کرنے کے ساتھ ٹیم کا ہیڈ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کو بنادیا گیا۔ صحافی عزیز میمن کا قتل کب ہوا؟16 فروری کو نوشہرو فیروز کی ایک نہر سے سندھی روزنامہ کاوش سے وابستہ صحافی کی لاش ملی تھی جن کےگلے کے گرد تار بندھی ہوئی تھی۔ پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کیں۔ لیکن بعض گرفتاریوں کے باوجود پولیس کو اب تک مبینہ قاتلوں کی گرفتاری میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ یاد رہے کہ عزیز میمن نے مارچ 2019 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ٹرین مارچ کے دوران محراب پور میں استقبال کے لیے آنے والوں کو کرائے پر لایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، استقبال کے لیے آنے والوں سے فی شخص دو ہزار روپے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں 200 روپے دیے گئے تھے۔ اس رپورٹ پر عزیز میمن کو بعض مقامی افراد کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملی تھیں مگر اس کے باوجود بھی انہیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔عزیز میمن کے قتل کی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھی مذمت اور واقعے کا نوٹس لیا گیا تھا۔ تاہم، 20 سے زائد روز گزر جانے کے باوجود بھی پولیس کی جانب سے اب تک کیس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی ہے جس پر صحافی برادری میں تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ 56 سالہ عزیز میمن 30 سال سے لگ بھگ صحافت سے وابستہ تھے اور ان کے قتل پر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی مذمت اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
9:53 AM

8 مارچ خواتین کا عالمی دن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اہم تقریبات اور سیمینار ز کاانعقاد کیا جائیگا جن میں مقررین خواتین کے حقو ق کے حوالے سے اہم امور پرروشنی ڈالیں گے ۔
اس دن خواتین کی جانب سے ریلیاں نکالی جائیں گی جن میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اورانسانی کی علمبردار تنظیمیں زور شور سے شرکت کریں گی۔
اقوام متحدہ نے 1656 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ اس کا مقصد خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
 امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے 1909 میں 28 فروری کو خواتین کا دن منایا گیا جس کے بعد 1910 میں خواتین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس میں تجویز کیا گیا کہ یہ دن سالانہ طور پر منایا جانا چاہیے۔ اس کانفرنس میں 17 ممالک کی 100 خواتین نے اس خیال کو متفقہ طور پر منظور کیا۔
یہ پہلی مرتبہ 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں منایا گیا۔ اس حساب سے رواں برس 108 یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔
خواتین کو عورت مارچ کی اجازت مل گئی
خیال رہے کہ ہر سال مارچ کی آٹھ تاریخ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے جس میں اس بات کا عزم کیا جاتاہے کہ خواتین کو حاصل آزادیوں کا تحفظ کرتے ہوئے ان کی مزید آزادی اورحقو ق کے حصول کے جدوجہدجاری رکھی جائیگی۔
اس سال بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے لاہور کے علاوہ، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے بڑے اور اہم شہروں میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ’عورت مارچ‘ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
9:51 AM

Coronavirus: اٹلی میں 1 کروڑ 60 لاکھ افراد کو لاک ڈاؤن کا سامنا

Getty Images
اٹلی نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کی آبادی پر مشتمل علاقے کو لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں لمبارڈی اور شمالی اور مشرقی اٹلی کے گیارہ صوبے بھی شامل ہیں۔
قرنطینہ کا دورانیہ اپریل کے اوائل تک جاری رہے گا۔
ملک میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں اور جمنیزیم، سوئمنگ پولز، میوزیم اور سکینگ ریزارٹ بند کر دیے جائیں گے۔
اٹلی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔
اتوار کو شروع ہونے والے ان اقدامات کی زد میں ملکی اقتصادیات کے اہم مراکز میلان اور سیاحتی مقام وینس بھی آئیں گے۔
اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 230 سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکام کی جانب سے جاری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں 50 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
سنیچر کو سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق متاثرہ افراد کی تعداد 1200 سے بڑھ کر 5883 تک پہنچ چکی ہے۔

چین میں قرنطینہ کے لیے مختص ہوٹل منہدم

AFP
یہ ہوٹل 2018 میں کھلا اور اس میں 80 کمرے تھے۔
چین کے شہر کونزو میں شینجیا ہوٹل کی عمارت زمیں بوس ہوگئی ہے۔ اس عمارت کو کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے قرنطینہ کی سہولت کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔
پانچ منزلہ اس عمارت میں کل 70 افراد تھے جن میں سے 40 کو ملبے سے نکال لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں ایمرجنسی ورکرز کو عمارت کے ملبے میں لوگوں کو تلاش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس بات کی ابھی تک نشاندہی نہیں ہو سکی کہ یہ عمارت کیوں گری اور ابھی تک کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے سات بجے پیش آیا۔ چینی مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ہوٹل قرنطینہ کے لیے استعمال کیا جارہا تھا اور ان میں وہ افراد موجود تھے جن کا کورونا وائرس لاحق ہونے والے افراد کے ساتھ قریبی تعلق رہ چکا تھا۔
یہ ہوٹل 2018 میں کھلا اور اس میں 80 کمرے تھے۔
EPA
چینی مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ہوٹل کرنتھینا کے لیے استعمال کیا جارہا تھا
یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق شام سات بجکر 30 منٹ پر پیش آیا۔
یہ ہوٹل سنہ 2018 میں کھلا تھا اور اس میں 80 گیسٹ روم ہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اس عمارت کو کورونا وائرس کے مریضوں سے رابطے میں رہنے والے افراد کی مانیٹرنگ کی غرض سے قرنطینہ کی سہولت کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔
بیجنگ نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک عورت نے کہا کہ ان کے رشتہ دار جن میں ان کی بہن بھی شامل تھیں، اس عمارت میں قائم قرنطینہ میں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی ایک دوسرے ہوٹل میں جو قرنطینہ کے لیے استعمال ہو رہا ہے، میں موجود ہیں۔
Twitter/ Global Times
جمعے کے روز چینی ریاست فوجیان کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں کورونا وائرس کے 296 کیسز ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد لوگوں کو نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
صحت کے عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، زیادہ تر ہلاکتیں چینی صوبے ہوبائی میں ہوئی ہیں جہاں سے اس وائرس کی شروعات ہوئی۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی صورتحال

پوپ فرانسس کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اتوار کے روز کی دعا ِ خصوصی اینجلس پریئر، اجتماع کے بجائے انٹرنیٹ پر لائیو سٹریم کے دوران کریں گے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ساحل کے نزدیک روکے گئے بحری جہاز میں موجوں لوگوں میں سے اکیس میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
صحت کے عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
15 امریکی شہریوں کو بیتلیہم میں قرنطینہ میں ڈال دیا گیا ہے۔
سنیچر کو شائع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چین کی درآمدات کو وائرس سے شدید نقصان ہوا ہے۔
سلوواکیا، پیرو اور ٹوگو میں کورونا وائرس کے پہلے کیسز سامنے آئے ہیں۔
برطانیہ میں ایک 80 برس کے شخص کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے دوسرے فرد بن گئے ہیں۔
فرانس نے کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد ملک بھر میں سکول بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کینیڈا نے پہلے ایسے کیس کی تصدیق کردی ہے جس میں تشخیص شدہ شخص ملک سے باہر نہیں گیا اور ایسے کیس شخص سے رابطے میں نہیں تھا جسے کورونا وائرس ہو۔
مالٹا میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کی دھمکی کے بعد ایک بحری بیڑے کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔

9:50 AM

کورونا وائرس،متحدہ عرب امارات میں سکول ایک ماہ کے لیے بند

دبئی: کورونا وائرس کے خدشے کے پیش ِ نظر متحدہ عرب امارات نے اتوار سے سکول ایک ماہ کے لیے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق چین سے پھیلنے والا کورونا وائرس اب متحدہ عرب امارات میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگا ہے ۔متحدہ عرب امارات میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 30 سے بڑھ کر 45 ہوگئی ہے ۔ کویت میں کورونا وائرس کے  3نئے مریض جبکہ  قطر میں 12 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں ۔
9:48 AM

اپنے سٹاف کی تنخواہ 70 ہزار ڈالر کرنے والا امریکی باس


GRAVITY
ڈین پرائس
سنہ 2015 میں امریکی شہر سیئٹل میں واقع ایک کارڈ پیمنٹ کمپنی کے باس نے اپنے 120 افراد پر مشتمل سٹاف کی کم سے کم تنخواہ 70 ہزار امریکی ڈالر سالانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے ایسا اپنی تنخواہ میں سے ایک ملین ڈالر کاٹ کر کیا۔
پانچ سال بعد بھی وہ اپنے فیصلے پر برقرار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ جوا کامیاب رہا۔
کمپنی کے مالک ڈین پرائس اپنی دوست ویلیری کے ساتھ سیئٹل کے قریب پہاڑوں میں ہائیکنگ کر رہے تھے جب ان کے سامنے ایک پریشان کُن انکشاف ہوا۔
چہل قدمی کے دوران ویلیری نے ڈین کو بتایا کہ ان کی زندگی بہت مشکلات کا شکار تھی۔ ان کے مالک مکان نے کرایہ 200 ڈالر تک بڑھا دیا تھا اور وہ بمشکل بل ادا کر پا رہی تھیں۔
یہ سن کر ڈین کو غصہ آیا۔ ایک زمانے میں ویلیری ڈین کی گرل فرینڈ تھیں۔ ویلری نے 11 سال فوج میں گزارے اور دو مرتبہ عراق گئیں۔
ہفتے میں 50 گھنٹے کام کر کے اور دو نوکریاں کرنے کے باوجود ان کا گزارہ مشکل سے ہو رہا تھا۔
ڈین کہتے ہیں ’وہ ایک ایسی خاتون ہیں جو خدمت، وقار اور سخت محنت جیسے الفاظ کی مجسم تصویر ہیں۔‘
حالانکہ ویلیری سالانہ 40 ہزار ڈالر کما رہی تھیں لیکن سیئٹل جیسے شہر میں تھوڑے بہتر گھر کے لیے یہ تنخواہ بہت کم تھی۔
ڈین کو غصہ آیا کہ دنیا کس قدر عدم مساوات کی جگہ بن چکی ہے اور پھر انھیں احساس ہوا کے وہ بھی اسی مسئلے کا ایک حصہ ہیں۔
GRAVITY
ڈین پرائس اور ان کی والدہ
31 برس کی عمر میں ڈین پرائس ایک لکھ پتی تھے۔ ان کی کمپنی ’گریویٹی پیمنٹس‘ جسے انھوں نے اپنے لڑکپن میں بنایا تھا، کے 2000 سے زائد کسٹمرز تھے۔
وہ سالانہ 11 لاکھ ڈالر کما رہے تھے لیکن ویلیری کے ساتھ بات چیت نے انھیں سوچ میں ڈال دیا۔ انھوں نے تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔
مسیحی گھرانے میں پرورش پانے والے ڈین پرائس کی شخصیت نہ صرف مثبت اور حوصلہ افزائی کرنے والی تھی بلکہ وہ دوسروں کی تعریف کرنے میں فراخ دل اور مکمل طور پر شائستہ مزاج تھے۔ وہ امریکہ میں عدم مساوات کے خلاف مہم جو بن گئے۔
وہ کہتے ہیں ’لوگ بھوک کا شکار ہیں، انھیں بھلا دیا گیا ہے یا ان کا استحصال ہو رہا ہے تاکہ نیویارک کے کسی ٹاور کے اوپر کوئی گھر بنا سکے، جس میں سونے کی کرسیاں ہوں۔‘
’ہماری تہذیب میں ہم لوگ بحثیت ایک معاشرہ لالچ کو عظمت دیتے رہتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ فوربز کی فہرست اس کی بدترین مثال ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1995 سے پہلے امریکہ کی نصف غریب آبادی قومی دولت کا بڑا حصہ کماتی تھی ان امیروں کی نسبت جو صرف ایک فیصد تھے لیکن پھر پانسہ پلٹا اور ایک فیصد امیر لوگ 50 فیصد غریب آبادی سے زیادہ کمانے لگے اور یہ فاصلہ بڑھتا رہا۔
سنہ 1965 میں کمپنیوں کے سربراہ ایک عام ملازم سے 20 گنا زیادہ کما رہے تھے لیکن سنہ 2015 تک یہ فرق بڑھ کر 300 گنا ہو گیا۔
ویلیری کے ساتھ پہاڑ چڑھتے ہوئے انھیں ایک خیال آیا۔ انھوں نے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈینیئل کاہنمین اور انگس ڈیٹن کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں جائزہ لیا گیا تھا کہ امریکیوں کو خوشحال رہنے کے لیے کتنے پیسے درکار ہوتے ہیں۔
انھوں نے ویلیری سے اسی وقت وعدہ کیا کہ وہ اپنی کمپنی گریویٹی میں کم سے کم اجرت میں نمایاں اضافے کریں گے۔
غور و فکر کے بعد وہ 70 ہزار ڈالر کے نمبر تک پہنچے۔ انھیں احساس ہوا کہ انھیں نہ صرف اپنی تنخواہ کم کرنی چاہیے بلکہ اپنے دو گھر گروی رکھنے پڑیں گے اور اپنے حصص اور بچت بھی چھوڑنا ہو گی۔
GRAVITY
انھوں نے اپنے عملے کو جمع کر کے یہ خبر دی۔ انھیں توقع تھی کہ وہاں جشن کا سماں ہو گا لیکن پرائس ڈین بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب یہ اعلان کیا تو ایسا نہیں ہوا اور انھیں اپنی بات کو دہرانا پڑا۔
پانچ سال بعد ڈین ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے پرنسٹن کے پروفیسروں کی تحقیق کا اہم جز نہیں دیکھا تھا۔ جس کے مطابق لوگوں کو خوش رہنے کے لیے 75 ہزار ڈالر درکار تھے۔
اب بھی کمپنی کے ایک تہائی ارکان کی تنخواہیں فوری طور پر دگنی ہونا تھیں۔ تب سے ’گریویٹی‘ بدل گئی۔
عملے کی تعداد دگنی ہوئی اور کمپنی کے توسط سے ہونے والی ادائیگیاں سالانہ 3.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10.2 ارب ڈالر ہو گئیں۔
لیکن کچھ دیگر پیمائشیں بھی ہیں جن پر پرائس کو فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا ’عملے کی تنخواہ کم سے کم 70 ہزار ڈالر کیے جانے سے قبل ہمارے ٹیم کے لوگوں کے ہاں ہر سال اوسطاً دو بچے پیدا ہوتے تھے۔
’جب سے یہ اعلان کیا گیا ہے چار سال کے عرصے میں ہمارے عملے کے ہاں 40 بچے پیدا ہوئے ہیں۔‘
کمپنی کے 10 فیصد سے زائد اراکین ایسے علاقے میں اپنا گھر خریدنے کے قابل ہو گئے جو امریکہ میں کرائے پر رہنے والوں کے لیے مہنگی ترین جگہوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم تھی۔
خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لوگوں کو جو فائدہ ہو گا وہ فضول خرچی میں چلا جائے گا لیکن جو ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ لوگوں نے اپنے پنشن فنڈ میں پیسہ ڈالا اور 70 فیصد کے قریب ملازمین نے کہا کہ انھوں نے اپنے قرضے ادا کر دیے ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہوا جب سیئٹل میں کم سے کم اجرت 15 ڈالر فی گھنٹہ مقرر کرنے کی بحث چل رہی تھی۔ چھوٹے بزنس والے لوگ اس کی مخالفت کر رہے تھے کہ اس اضافی مالی بوجھ سے ان کا کاروبار بند ہو جائے گا۔ پرائس کو ’کمیونسٹ‘ ہونے کا طعنہ بھی دیا گیا۔
’گریویٹی‘ کے دو سینیئر اہلکاروں نے احتجاجاً استعفیٰ بھی دے دیا۔ وہ جونیئر عملے کی راتوں رات تنخواہیں بڑھنے پر خوش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ لوگ کاہل ہو جائیں گے اور کمپنی کا بچنا مشکل ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مالی پریشانیوں سے آزاد ہو کر لوگوں نے زیادہ توجہ سے کام کرنا شروع کر دیا۔
سینیئر سٹاف پر سے دباؤ کم ہوا اور لوگ زیادہ اچھی طرح اپنی چھٹیوں کا فائدہ اٹھانے لگے۔
پرائس نے بتایا کہ ان کے عملے کے ایک رکن ہر روز 90 منٹ گاڑی چلا کر دفتر آتے تھے اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تو اس پر کتنا خرچ آئے گا لیکن جب سے ان کی تنخواہ بڑھی ہے انھوں نے دفتر کے قریب گھر لے لیا ہے۔ ان کے پاس اپنے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے اور وہ ورزش کے لیے وقت نکال رہے ہیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہو گئی ہے۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے والدین کے قرضے بھی اتار دیے اور اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں۔
پرائس کا خیال ہے کہ ’گریویٹی‘ کے زیادہ منافع کمانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے سٹاف میں کام کا جذبہ پہلے بھی تھا لیکن وہ زیادہ توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ ان کے مطابق اب وہ پیسے کے لیے کام پر نہیں آتے بلکہ اچھا کام کرنے کے لیے کام پر آتے ہیں۔
کمپنی کے ایک سینیر اہلکار نے کہا کہ ملک میں سنہ 2008 کے مالی بحران کے دنوں میں زیادہ زور پیسے بچانے پر تھا اور اس وقت روایتی سوچ کے مطابق انھیں 35 میں سے کم سے کم 12 لوگوں کو فارغ کر دینا چاہیے تھا لیکن پرائس نے خرچہ کم کرنے پر توجہ دی۔
YOUTUBE
اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے والدین کے قرضے بھی اتار دیے اور اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں
چند مہینوں میں کمپنی پھر سے منافح کمانے لگی لیکن لوگوں کی تنخواہیں پھر بھی کم سطح پر رکھی گئیں۔ اسی دوران کمپنی کی ملازم روزیٹا بارلو نے مالی مشکلات کی وجہ سے خفیہ طور پر شام کو میکڈونلڈز میں کام کرنا شروع کر دیا جہاں انھیں کچھ عرصے بعد ترقی کی آفر دی گئی۔
جب یہ بات ان کی کمپنی کو پتہ چلی تو پرائس نے ان کو ملاقات کے لیے بلایا۔ بارلو نے یہ سمجھتے ہوئے کہ انھیں نوکری سے نکال دیا جائے گا، رونا شروع کر دیا۔
لیکن ان سے پوچھا گیا کہ انھیں تنخواہ میں کتنا اضافہ چاہیے جس سے سے وہ کمپنی میں رک جائیں گی اور ان کی تنخواہ 40 ہزار ڈالر بڑھ گئی۔
پرائس کو سٹاف کی مشکلات سمجھنے میں مزید کچھ سال لگ گئے۔ سنہ 2015 تک انھوں نے سالانہ تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ دینا شروع کر دیا تھا۔ پھر پرائس کی ویلری سے بات چیت ہوئی جس کے بعد انھوں نے مزید اقدامات کیے۔
پرائس کا خیال تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی امریکہ میں دیگر کاروبار بھی ملازمین کی فلاح کے لیے ایسے اقدامات کریں گے لیکن زیادہ بڑے پیمانے پر ایسا نہیں ہوا۔ ان کا خیال ہے کہ ایمازون میں کم سے کم اجرت بڑھنے میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔
اپنی تنخواہ کم کرنے سے پہلے پرائس ایک عام سفید فام امیر آدمی تھے۔ وہ ایک مہنگے گھر میں رہتے تھے اور مہنگے ہوٹلوں میں جانا اور مہنگی شراب پینا ان کے شوق میں شامل تھا۔
لیکن پھر انھوں نے اپنے گزارے کے لیے اپنے گھر کا ’ایئر بی این بی‘ پر اشتہار دے دیا۔ ان کی کمپنی کے ملازمین نے پیسے ملا کر ان کی پرانی گاڑی کی جگہ انھیں نئی ٹیسلا کار لے کر دی۔
یوٹیوب پر اس لمحے کی ویڈیو موجود ہے جب انھیں نئی کار کا سرپرائز دیا گیا۔ پرائس فرط جذبات سے رو رہے تھے۔
پانچ سال بعد بھی پرائس اسی کم تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ اتنے مطمئن ہیں جتنے وہ اس وقت بھی نہیں تھے جب ان کی آمدن کئی ملین تھی۔ تاہم یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر روز ایک امتحان جیسا ہوتا ہے۔
’میری اور مارک زکربرگ کی ایک ہی عمر ہے اور میں منفی سوچ کے لمحات سے گزرتا ہوں جب مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے بھی مارک زکربرگ جتنا امیر ہونا چاہیے۔‘
’میرے اندر بھی امیر لوگوں کی فہرست میں اپنا نام دیکھنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سب کچھ ترک کر دینا اتنا آسان نہیں لیکن ’اب میری زندگی بہت بہتر ہے۔ ‘
9:43 AM

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین کا دن منایا جا رہا ہے

اسلام آباد (92 نیوز) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خاتون کا دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستانی خواتین ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ امن مشنز میں بھی کئی سالوں سے پاکستانی خواتین کا کلیدی کردار رہا۔۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین انگیج منٹ ٹیمز تعینات کرنے والا پہلا ملک ہے ۔۔آج بھی 78پاکستانی خواتین امن کا ہروال دستہ ہیں۔
پاکستان کا اقوام متحدہ چھتری تلے امن کا سفر1960ء سے جاری ہے۔ 28 ممالک کیلئے 46 امن مشنز میں مادروطن کے سرفروش سپوتوں نے 157 جانیں نچھاور کیں توبہادر بیٹیاں بھی پیچھے نہ رہیں۔ امن خدمات میں پیش پیش پاکستانی خواتین، دنیا میں پہلی انگیج منٹ ٹیمزکا حصہ بنیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتیرس بھی معترف ہیں۔
اقوام متحدہ امن مشن کے تحت 19 جون 2019 ء کو کانگو میں خواتین افسران پر مشتمل پہلی ٹیم تعینات کی گئی، اس وقت دوخواتین ٹیمیں متعین ہیں جبکہ تیسری ٹیم وسطی افریقی جمہوریہ میں رواں سال 20 مارچ سے کام شروع کرےگی۔ تاحال امن مشنز میں 78 پاکستانی پیس کیپرز خواتین کلیدی خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ مجموعی طور پر 450 خواتین افسران امن خدمات سرانجا م دے چکیں۔
کانگو میں پاکستانی خواتین امن فوجیوں کا 15 رکنی دستہ بہترین کارکردگی پرتمغے حاصل کر چکا۔ اس ٹیم میں ماہر نفسیات، ڈاکٹرز، نرسز، انفارمیشن آفیسر، لاجسٹک آفیسر سمیت دیگر افسران شامل ہیں۔ خواتین نے انتہائی لگن اور انتھک محنت سے پیشہ وارانہ کارکردگی کی بنیاد پردنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
2019 کانگو مشن میں بہترین خدمات پر میجر سمیعہ کواقوام متحدہ سیکرٹری جنرل سند، ڈینکون مارچ میں 5 گھنٹے میں 25 کلومیٹر فاصلہ طے کرنے والی واحد خاتون آفیسر کا اعزاز میجر عروج عارف اوراقوام متحدہ تربیتی ٹیم کا دو سال کیلئے حصہ بننے کا اعزاز میجر سعدیہ کو حاصل ہوا جبکہ پاکستانی خواتین آج بھی امن کیلئے خدمات کی فراہمی کیلئے پرعزم ہیں۔
عالمی سطح پر پاکستانی خواتین نے امن ،استحکام اورسماجی بہبود کیلئے کلیدی کردارادا کرکے پاکستان کیلئے نیک نامی کا موجب بنیں۔ اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل نے گزشتہ دورہ میں کہا تھا پاکستان دنیا بھر میں امن مشنز میں شامل، امن کا مستقل مزاج، قابل بھروسہ حصہ دار ہے۔