Popunder ads

Breaking

اتوار، 8 مارچ، 2020

اپنے سٹاف کی تنخواہ 70 ہزار ڈالر کرنے والا امریکی باس


GRAVITY
ڈین پرائس
سنہ 2015 میں امریکی شہر سیئٹل میں واقع ایک کارڈ پیمنٹ کمپنی کے باس نے اپنے 120 افراد پر مشتمل سٹاف کی کم سے کم تنخواہ 70 ہزار امریکی ڈالر سالانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے ایسا اپنی تنخواہ میں سے ایک ملین ڈالر کاٹ کر کیا۔
پانچ سال بعد بھی وہ اپنے فیصلے پر برقرار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ جوا کامیاب رہا۔
کمپنی کے مالک ڈین پرائس اپنی دوست ویلیری کے ساتھ سیئٹل کے قریب پہاڑوں میں ہائیکنگ کر رہے تھے جب ان کے سامنے ایک پریشان کُن انکشاف ہوا۔
چہل قدمی کے دوران ویلیری نے ڈین کو بتایا کہ ان کی زندگی بہت مشکلات کا شکار تھی۔ ان کے مالک مکان نے کرایہ 200 ڈالر تک بڑھا دیا تھا اور وہ بمشکل بل ادا کر پا رہی تھیں۔
یہ سن کر ڈین کو غصہ آیا۔ ایک زمانے میں ویلیری ڈین کی گرل فرینڈ تھیں۔ ویلری نے 11 سال فوج میں گزارے اور دو مرتبہ عراق گئیں۔
ہفتے میں 50 گھنٹے کام کر کے اور دو نوکریاں کرنے کے باوجود ان کا گزارہ مشکل سے ہو رہا تھا۔
ڈین کہتے ہیں ’وہ ایک ایسی خاتون ہیں جو خدمت، وقار اور سخت محنت جیسے الفاظ کی مجسم تصویر ہیں۔‘
حالانکہ ویلیری سالانہ 40 ہزار ڈالر کما رہی تھیں لیکن سیئٹل جیسے شہر میں تھوڑے بہتر گھر کے لیے یہ تنخواہ بہت کم تھی۔
ڈین کو غصہ آیا کہ دنیا کس قدر عدم مساوات کی جگہ بن چکی ہے اور پھر انھیں احساس ہوا کے وہ بھی اسی مسئلے کا ایک حصہ ہیں۔
GRAVITY
ڈین پرائس اور ان کی والدہ
31 برس کی عمر میں ڈین پرائس ایک لکھ پتی تھے۔ ان کی کمپنی ’گریویٹی پیمنٹس‘ جسے انھوں نے اپنے لڑکپن میں بنایا تھا، کے 2000 سے زائد کسٹمرز تھے۔
وہ سالانہ 11 لاکھ ڈالر کما رہے تھے لیکن ویلیری کے ساتھ بات چیت نے انھیں سوچ میں ڈال دیا۔ انھوں نے تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔
مسیحی گھرانے میں پرورش پانے والے ڈین پرائس کی شخصیت نہ صرف مثبت اور حوصلہ افزائی کرنے والی تھی بلکہ وہ دوسروں کی تعریف کرنے میں فراخ دل اور مکمل طور پر شائستہ مزاج تھے۔ وہ امریکہ میں عدم مساوات کے خلاف مہم جو بن گئے۔
وہ کہتے ہیں ’لوگ بھوک کا شکار ہیں، انھیں بھلا دیا گیا ہے یا ان کا استحصال ہو رہا ہے تاکہ نیویارک کے کسی ٹاور کے اوپر کوئی گھر بنا سکے، جس میں سونے کی کرسیاں ہوں۔‘
’ہماری تہذیب میں ہم لوگ بحثیت ایک معاشرہ لالچ کو عظمت دیتے رہتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ فوربز کی فہرست اس کی بدترین مثال ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1995 سے پہلے امریکہ کی نصف غریب آبادی قومی دولت کا بڑا حصہ کماتی تھی ان امیروں کی نسبت جو صرف ایک فیصد تھے لیکن پھر پانسہ پلٹا اور ایک فیصد امیر لوگ 50 فیصد غریب آبادی سے زیادہ کمانے لگے اور یہ فاصلہ بڑھتا رہا۔
سنہ 1965 میں کمپنیوں کے سربراہ ایک عام ملازم سے 20 گنا زیادہ کما رہے تھے لیکن سنہ 2015 تک یہ فرق بڑھ کر 300 گنا ہو گیا۔
ویلیری کے ساتھ پہاڑ چڑھتے ہوئے انھیں ایک خیال آیا۔ انھوں نے نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈینیئل کاہنمین اور انگس ڈیٹن کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں جائزہ لیا گیا تھا کہ امریکیوں کو خوشحال رہنے کے لیے کتنے پیسے درکار ہوتے ہیں۔
انھوں نے ویلیری سے اسی وقت وعدہ کیا کہ وہ اپنی کمپنی گریویٹی میں کم سے کم اجرت میں نمایاں اضافے کریں گے۔
غور و فکر کے بعد وہ 70 ہزار ڈالر کے نمبر تک پہنچے۔ انھیں احساس ہوا کہ انھیں نہ صرف اپنی تنخواہ کم کرنی چاہیے بلکہ اپنے دو گھر گروی رکھنے پڑیں گے اور اپنے حصص اور بچت بھی چھوڑنا ہو گی۔
GRAVITY
انھوں نے اپنے عملے کو جمع کر کے یہ خبر دی۔ انھیں توقع تھی کہ وہاں جشن کا سماں ہو گا لیکن پرائس ڈین بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب یہ اعلان کیا تو ایسا نہیں ہوا اور انھیں اپنی بات کو دہرانا پڑا۔
پانچ سال بعد ڈین ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے پرنسٹن کے پروفیسروں کی تحقیق کا اہم جز نہیں دیکھا تھا۔ جس کے مطابق لوگوں کو خوش رہنے کے لیے 75 ہزار ڈالر درکار تھے۔
اب بھی کمپنی کے ایک تہائی ارکان کی تنخواہیں فوری طور پر دگنی ہونا تھیں۔ تب سے ’گریویٹی‘ بدل گئی۔
عملے کی تعداد دگنی ہوئی اور کمپنی کے توسط سے ہونے والی ادائیگیاں سالانہ 3.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10.2 ارب ڈالر ہو گئیں۔
لیکن کچھ دیگر پیمائشیں بھی ہیں جن پر پرائس کو فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا ’عملے کی تنخواہ کم سے کم 70 ہزار ڈالر کیے جانے سے قبل ہمارے ٹیم کے لوگوں کے ہاں ہر سال اوسطاً دو بچے پیدا ہوتے تھے۔
’جب سے یہ اعلان کیا گیا ہے چار سال کے عرصے میں ہمارے عملے کے ہاں 40 بچے پیدا ہوئے ہیں۔‘
کمپنی کے 10 فیصد سے زائد اراکین ایسے علاقے میں اپنا گھر خریدنے کے قابل ہو گئے جو امریکہ میں کرائے پر رہنے والوں کے لیے مہنگی ترین جگہوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم تھی۔
خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لوگوں کو جو فائدہ ہو گا وہ فضول خرچی میں چلا جائے گا لیکن جو ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ لوگوں نے اپنے پنشن فنڈ میں پیسہ ڈالا اور 70 فیصد کے قریب ملازمین نے کہا کہ انھوں نے اپنے قرضے ادا کر دیے ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہوا جب سیئٹل میں کم سے کم اجرت 15 ڈالر فی گھنٹہ مقرر کرنے کی بحث چل رہی تھی۔ چھوٹے بزنس والے لوگ اس کی مخالفت کر رہے تھے کہ اس اضافی مالی بوجھ سے ان کا کاروبار بند ہو جائے گا۔ پرائس کو ’کمیونسٹ‘ ہونے کا طعنہ بھی دیا گیا۔
’گریویٹی‘ کے دو سینیئر اہلکاروں نے احتجاجاً استعفیٰ بھی دے دیا۔ وہ جونیئر عملے کی راتوں رات تنخواہیں بڑھنے پر خوش نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ لوگ کاہل ہو جائیں گے اور کمپنی کا بچنا مشکل ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مالی پریشانیوں سے آزاد ہو کر لوگوں نے زیادہ توجہ سے کام کرنا شروع کر دیا۔
سینیئر سٹاف پر سے دباؤ کم ہوا اور لوگ زیادہ اچھی طرح اپنی چھٹیوں کا فائدہ اٹھانے لگے۔
پرائس نے بتایا کہ ان کے عملے کے ایک رکن ہر روز 90 منٹ گاڑی چلا کر دفتر آتے تھے اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تو اس پر کتنا خرچ آئے گا لیکن جب سے ان کی تنخواہ بڑھی ہے انھوں نے دفتر کے قریب گھر لے لیا ہے۔ ان کے پاس اپنے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے اور وہ ورزش کے لیے وقت نکال رہے ہیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہو گئی ہے۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے والدین کے قرضے بھی اتار دیے اور اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں۔
پرائس کا خیال ہے کہ ’گریویٹی‘ کے زیادہ منافع کمانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے سٹاف میں کام کا جذبہ پہلے بھی تھا لیکن وہ زیادہ توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ ان کے مطابق اب وہ پیسے کے لیے کام پر نہیں آتے بلکہ اچھا کام کرنے کے لیے کام پر آتے ہیں۔
کمپنی کے ایک سینیر اہلکار نے کہا کہ ملک میں سنہ 2008 کے مالی بحران کے دنوں میں زیادہ زور پیسے بچانے پر تھا اور اس وقت روایتی سوچ کے مطابق انھیں 35 میں سے کم سے کم 12 لوگوں کو فارغ کر دینا چاہیے تھا لیکن پرائس نے خرچہ کم کرنے پر توجہ دی۔
YOUTUBE
اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے والدین کے قرضے بھی اتار دیے اور اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں
چند مہینوں میں کمپنی پھر سے منافح کمانے لگی لیکن لوگوں کی تنخواہیں پھر بھی کم سطح پر رکھی گئیں۔ اسی دوران کمپنی کی ملازم روزیٹا بارلو نے مالی مشکلات کی وجہ سے خفیہ طور پر شام کو میکڈونلڈز میں کام کرنا شروع کر دیا جہاں انھیں کچھ عرصے بعد ترقی کی آفر دی گئی۔
جب یہ بات ان کی کمپنی کو پتہ چلی تو پرائس نے ان کو ملاقات کے لیے بلایا۔ بارلو نے یہ سمجھتے ہوئے کہ انھیں نوکری سے نکال دیا جائے گا، رونا شروع کر دیا۔
لیکن ان سے پوچھا گیا کہ انھیں تنخواہ میں کتنا اضافہ چاہیے جس سے سے وہ کمپنی میں رک جائیں گی اور ان کی تنخواہ 40 ہزار ڈالر بڑھ گئی۔
پرائس کو سٹاف کی مشکلات سمجھنے میں مزید کچھ سال لگ گئے۔ سنہ 2015 تک انھوں نے سالانہ تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ دینا شروع کر دیا تھا۔ پھر پرائس کی ویلری سے بات چیت ہوئی جس کے بعد انھوں نے مزید اقدامات کیے۔
پرائس کا خیال تھا کہ ان کی دیکھا دیکھی امریکہ میں دیگر کاروبار بھی ملازمین کی فلاح کے لیے ایسے اقدامات کریں گے لیکن زیادہ بڑے پیمانے پر ایسا نہیں ہوا۔ ان کا خیال ہے کہ ایمازون میں کم سے کم اجرت بڑھنے میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔
اپنی تنخواہ کم کرنے سے پہلے پرائس ایک عام سفید فام امیر آدمی تھے۔ وہ ایک مہنگے گھر میں رہتے تھے اور مہنگے ہوٹلوں میں جانا اور مہنگی شراب پینا ان کے شوق میں شامل تھا۔
لیکن پھر انھوں نے اپنے گزارے کے لیے اپنے گھر کا ’ایئر بی این بی‘ پر اشتہار دے دیا۔ ان کی کمپنی کے ملازمین نے پیسے ملا کر ان کی پرانی گاڑی کی جگہ انھیں نئی ٹیسلا کار لے کر دی۔
یوٹیوب پر اس لمحے کی ویڈیو موجود ہے جب انھیں نئی کار کا سرپرائز دیا گیا۔ پرائس فرط جذبات سے رو رہے تھے۔
پانچ سال بعد بھی پرائس اسی کم تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ اتنے مطمئن ہیں جتنے وہ اس وقت بھی نہیں تھے جب ان کی آمدن کئی ملین تھی۔ تاہم یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر روز ایک امتحان جیسا ہوتا ہے۔
’میری اور مارک زکربرگ کی ایک ہی عمر ہے اور میں منفی سوچ کے لمحات سے گزرتا ہوں جب مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے بھی مارک زکربرگ جتنا امیر ہونا چاہیے۔‘
’میرے اندر بھی امیر لوگوں کی فہرست میں اپنا نام دیکھنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سب کچھ ترک کر دینا اتنا آسان نہیں لیکن ’اب میری زندگی بہت بہتر ہے۔ ‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Please do Not enter your any spam link in the comment box.